ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا کی ایک اونچی عمارت کی بالائی منزل میں اپنے دفتر کی میز پر بیٹھے مارکوس لیما کو یہاں سے پورا شہر دکھائی دیتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے مرکز آئس اڈیس (IceAddis) کے بانی کا دفتر عام طور پر پرجوش نوجوان کاروباری شخصیات سے بھرا ہوتا ہے اور یہاں کافی کے ایک کپ پر بڑے بڑے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔
مگر جب انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے تو سب کچھ ٹھپ ہو جاتا ہے۔
ڈجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ایکسیس ناؤ (Access Now) کی جانب سے اکٹھے کیے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں 33 ممالک میں دانستہ طور پر 200 بار انٹرنیٹ کی سروسز بند کی گئیں۔
مارکوس بتاتے ہیں کہ ایسے دنوں میں ان کے دفتر میں آنے جانے والوں کا رش بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ اوّل تو کوئی آتا ہی نہیں اور اگر کوئی غلطی سے آ بھی جائے تو انٹرنیٹ کے بغیر زیادہ دیر ٹھہرتا نہیں۔۔۔ آخر لوگ ایسے میں کیا کریں گے؟
وہ بتاتے ہیں کہ ان کی کمپنی کے پاس ایک سافٹ ویئر بنانے کا کانٹریکٹ تھا جو صرف اس وجہ سے منسوخ کر دیا گیا کیونکہ وہ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کام کو مقررہ وقت کے اندر مکمل نہںی کر پائے۔ ’ایسے حالات بھی ہوئے کہ عالمی سطح پر ہمارے صارفین کو لگا کہ ہم انھیں نظر انداز کر رہے ہیں مگر ہم اس بارے میں کچھ نہیں کر سکتے تھے۔’
Post a Comment